واقفینِ نَو کے والدین کی ذمہ داریاں
اس بات کو ہمیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔ ماں باپ کو اپنے بچوں کو پیش کرنے کے بعد اپنے فرض سے فارغ نہیں ہو جانا چاہئے۔ بیشک بچوں کو واقفینِ نَو میں پیش کرنے کا جذبہ قابلِ تعریف ہے۔ ہر سال ہزاروں بچوں کو واقفین نَو میں پیش کرنے کی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان درخواستوں کے پیش کرنے کے بعد ماں اور باپ دونوں کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔ ان بچوں کو اس خاص مقصد کے لئے تیار کرنا جو دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا مقصد ہے، اس کی تیاری کے لئے سب سے پہلے ماں باپ کو کوشش کرنی ہو گی۔ اپنا وقت دے کر، اپنے نمونے قائم کر کے بچوں کو سب سے پہلے خدا تعالیٰ سے جوڑنا ہو گا۔ بچوں کو نظامِ جماعت کی اہمیت اور اس کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہونے کے لئے بچپن سے ہی ایسی تربیت کرنی ہو گی کہ اُن کی کوئی اَوردوسری سوچ ہی نہ ہو۔ ہوش کی عمر میں آ کر جب بچے واقفینِ نَو اور جماعتی پروگراموں میں حصہ لیں تو اُن کے دماغوں میں یہ راسخ ہو کہ انہوں نے صرف اور صرف دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہے۔ زیادہ سے زیادہ بچوں کے دماغ میں ڈالیں کہ تمہاری زندگی کا مقصد دین کی تعلیم حاصل کرنا ہے۔ یہ جو واقفینِ نَو بچے ہیں ان کے دماغوں میں یہ ڈالنے کی ضرورت ہے کہ دین کی تعلیم کے لئے جو جماعتی دینی ادارے ہیں اُس میں جانا ضروری ہے۔ جامعہ احمدیہ میں جانے والوں کی تعداد واقفینِ نَو میں کافی زیادہ ہونی چاہئے۔ لیکن جو اعداد و شمار میرے سامنے ہیں، اُن کے مطابق سوائے پاکستان کے تمام ملکوں میں یہ تعداد بہت تھوڑی ہے۔ پاکستان میں تو اللہ کے فضل سے اس وقت ایک ہزار تینتیس واقفینِ نَو جامعہ احمدیہ میں پڑھ رہے ہیں۔ اور انڈیا میں جو تعداد سامنے آئی ہے وہ ۹۳ہے۔ یہ میرا خیال ہے کہ شاید اس میں شعبہ وقفِ نَو کو غلطی لگی ہو۔ اس سے تو زیادہ ہونے چاہئیں۔ بہرحال اگر اس میں غلطی ہے تو انڈیا کا جو شعبہ ہے وہ اطلاع دے کہ اس وقت جامعہ احمدیہ میں اُن کے واقفینِ نَو میں سے کتنے طلباء پڑھ رہے ہیں۔ جرمنی میں ۷۰ ہیں۔ یہ رپورٹ پچھلے جون تک ہے۔ اب وہاں ۸۰ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہ صرف جرمنی کے نہیں، اس میں یورپ کے مختلف ممالک کے بچے بھی شامل ہیں۔ کینیڈا کے جامعہ احمدیہ میں ۵۵ ہیں۔ اب اس میں کچھ تھوڑی سی تعداد شاید بڑھ گئی ہو۔ اس میں امریکہ کے بھی شامل ہیں۔ یوکے کے جامعہ میں گزشتہ رپورٹ میں ۱۲۰ تھے۔ شاید اس میں دس پندرہ کی کچھ تعداد بڑھ گئی ہو۔ یہاں بھی یورپ کے دوسرے ممالک سے بچے آتے ہیں۔ گھانا میں ۱۲ہے، یہ شاید وہاں جو نیا جامعہ شاہد کروانے کے لئے شروع ہوا ہے، اُس کی تعداد انہوں نے دی ہے۔ اسی طرح بنگلہ دیش میں ۲۳ ہیں۔ اور یہ کُل تعداد جو اب تک دفتر کے شعبہ کے علم میں ہے، وہ ۱۴۰۰ ہے۔ جبکہ واقفینِ نَو لڑکوں کی تعداد تقریباً اٹھائیس ہزار کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ہمارے سامنے تو تمام دنیا کا میدان ہے۔ ایشیا، افریقہ، یورپ، امریکہ، آسٹریلیا، جزائر، ہر جگہ ہم نے پہنچنا ہے۔ ہر جگہ ہر براعظم میں نہیں، ہر ملک میں نہیں، ہر شہر میں نہیں بلکہ ہر قصبہ میں، ہر گاؤں میں، دنیا کے ہر فرد تک اسلام کے خوبصورت پیغام کو پہنچانا ہے۔ اس کے لئے چند ایک مبلغین کام کو انجام نہیں دے سکتے۔
(خطبہ جمعہ ۱۸؍جنوری ۲۰۱۳ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍فروری ۲۰۱۳ء)